عاشقوں کو نام لینے میں ہی لذت ملتی ہے
کس چمن کے غنچہ و گل میں یہ نکہت ملتی ہے
شافعِ محشر شہِ کونین سرکارؐ امیں
چاہنے والوں کو ہی ان کی شفاعت ملتی ہے
ماہیِ بے آب جیسے جو تڑپتے بھی رہیں
اور رکھیں غم انہیں ہی فکر امت ملتی ہے
کڑھتے رہتے رات دن بھی امتی کے واسطہ
ہر جہاں میں ان کو کیسی شان و عظمت ملتی ہے
زندگی ہی وقف ساری کر رکھی تھی آپؐ نے
دھیان سے قرآن پڑھ لیں، تو بھی سیرت ملتی ہے
جائزہ لیں ہم کبھی اعمال کا یکسو ہو کر
ذات کو اپنے پرکھنا ہے کہ نسبت ملتی ہے
انقلابی سوچ ناصؔر ہے ضروری جو یہاں
میل کھائے گر روش، تب جا کے رفعت ملتی ہے

0
70