لفظوں کے عوض جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے بدل لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے کیا تھی سوچ کی گھٹا سے
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا
اس وقت کے خنجر نے ہے کاٹا میرا نصیب
رفتار کے میں درجات کمانے نکلا تھا
کھو دیا متاعِ زیست راہِ محبت میں
گم گشتہ اپنی ذات کمانے نکلا تھا
ہمایوںؔ

0
106