موسمِ رنگ و بو آئے
رو برو جب بھی تو آئے
کون ہے تجھ سا مری جاں
اور جتنے خوب رو آئے
میکدے میں تیرے ساقی
ایک ہم ہی با وضو آئے
تشنگی کا ہو یہ عالم
خود ہی چل کے آبِ جو آئے
کر سکوں تم کو میں قائل
وہ سلیقہ گفتگو آئے
پھول کی ہر اک کلی سے
مجھ کو تیری خوشبو آئے
وجہ غم کیا ہے مبشّر
آنکھ سے کیوں لہو آئے

47