| وصل میں کچھ نہ بنا، رخ پہ لیے بال ہی ڈال | 
| بے لباسی میں بھی اس کو رہا پردے کا خیال | 
| مان اگر بات تو اس زلف کو بس کاٹ ہی ڈال | 
| ایسا زہریلا، کہیں کاٹ نہ لے، سانپ نہ پال | 
| داغدار اس کا ہے چہرہ، ترا چہرہ بے داغ | 
| سو مناسب ہی نہیں چاند کو دیں تجھ سے مثال | 
| آمنے سامنے مسجد وہاں، مے خانہ یہاں | 
| ہم رہیں تھوکتے اور شیخ کی بہتی رہے رال | 
| بزمِ یاراں میں ہم آئے، لیے طغیانئ چشم | 
| دوست بھاگے گئے، لے آئے اٹھا کر رومال | 
| ضعف میں اور ہوئے ہیں متمنی، تُف ہے | 
| سو ملامت، دلِ حسرت زدۂ شوقِ وصال | 
| حالت اب غیر ہوئی ہے بھی تو کیا روئیے، خیر! | 
| اور گِھستے گئے، ہوتے جو گئے استعمال | 
| خود سے ہونے لگی الجھن کہ ہے احوال وہی | 
| کتنے ہی سال گئے، اک نہ گیا تیرا ملال | 
| ہم نے وعدہ کیا، خود سے نہ کریں گے تجھے یاد | 
| آپ ہی آپ جو یاد آؤ تو کیا استدلال | 
| جی نہ سنبھلے گا مرا ہجر میں اے درد شریک! | 
| جا مجھے چھوڑ مرے حال پہ کڑھ کڑھ نہ ہو لال | 
| دل کا مذکور ہی کیا، پوچھیے مت قیمتِ دل | 
| جی کو بھا جائے تو لے جائیے، ہے مفت کا مال | 
| پوچھتے کیا ہو گھرانے کا مرے، کون ہوں میں | 
| میں ہوں تنہاؔ، مرا ننھیال نہ کوئی ددھیال | 
 
    
معلومات