آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر |
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر |
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے |
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر |
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا |
ماحول بیخودی کا بنائے ہے رات بھر |
وہ وقت تیرے قرب کا تو مختصر سا تھا |
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر |
اس وارداتِ عشق نے بھی کام کر دیا |
اب سوچ میں نہ کوئی سمائے ہے رات بھر |
یہ مرتبہ دیا ہے ترے عشق نے مجھے |
مجھ کو ترا ہی گیت سنائے ہے رات بھر |
تاریکیوں کے بیچ ضرورت مجھے جو تھی |
امید کی وہ شمع جلائے ہے رات بھر |
اس بار وہ ہمایوں سے ملا تھا مختصر |
وہ پھر ترے جو خواب میں آئے ہے رات بھر |
ہمایوں |
معلومات