کہنا اُسے اپنی ذات میں اتنا کمال رکھے
جذبہ نہیں اپنا دل بھی تھوڑا سنبھال رکھے
مزدور کی بیٹی بدون جہیز کے بکتی نہیں
کہنا اُسے قاضئ شہر سے میرا سوال رکھے
سوچو ایوانوں میں بیٹھے اندھے گونگے بہرے لوگو
دل کھولتا ہے کوئی جو سامنے وطن کی مثال رکھے
ابھی مقتل سجنا ہے طبل بجنا ہے افری
اسے کہنا اب کے سر ہتھیلی پہ نکال رکھے

0
45