پھیلا تھا جو سُخن کے سوال و جواب میں
وہ شخص کُھل رہا ہے ہماری کِتاب میں
بے رنگ موسموں کو بھی کر دے گی مُشکبار
خُوشبو جو پل رہی ہے مہکتے گلاب میں
موجوں نے جب سے سحر زدہ کر دیا مُجھے
تب سے کوئی پکار رہا ہے چناب میں
دِل خوش ہوا تھا آبِ رواں دیکھ کر جسے
دھوکا چُھپا تھا دشت کے اندھے سراب میں
وہ خواب آج تک بھی معمہ بنا رہا
کیا خواب تھا ادھورا سا میرے ہی خواب میں
تھمتے نہیں تھے یار کی آنکھوں سے بہتے اشک
مانؔی کو اُس نے دیکھا تھا جب اِضطراب میں

0
60