سنا ہے وہ پھر آج آنے لگے ہیں
مَرَض جن کے ہاتھوں پرانے لگے ہیں
نکلنے میں اک پل لگا بس وہاں سے
پہنچتے جہاں پر زمانے لگے ہیں
گرایا تھا جس نے رقیبوں کے در پر
وہی کیوں مجھے اب اٹھانے لگے ہیں
زمانے کو شاید ازل آ رہی ہے
جو آ کے مجھے آزمانے لگے ہیں
لکھی بدنصیبی تھی قسمت مری میں
جو رائیگاں مرے سب نشانے لگے ہیں
کوئی لازمی راز گہرا چھپا ہے
جو دشمن مرے در پہ آنے لگے ہیں
جو ہاتھوں سے اپنے پلاتے تھے زم زم
وہی زہر مجھ کو کھلانے لگے ہیں
پہلے قتل کر کے مری لاش پھینکی
کٹا سر مرا اب چھپانے لگے ہیں
جو دِیں رات تم نے وہ ساری دلیلیں
اگر سچ کہوں تو بہانے لگے ہیں
معاف اب تو کر دیجیو تم خدارا
کئے کی سزا اب تو پانے لگے ہیں
ملاقات کہتے ہیں اس کو بھلا آپ
ابھی آئے ہیں اور جانے لگے ہیں؟
مرے حال کو دیکھ کر اہلِ غم سب
جو روتے تھے خود اب ہنسانے لگے ہیں
جو رسوا تھے سارے زمانے کے یارو
وہ اب محترم کہلوانے لگے ہیں
جنہیں ہنستا دیکھا نہ اب تک کسی نے
وہ بھی مجھ پہ اب مسکرانے لگے
میں بھی ہو گیا ہوں گو برباد لیکن
ترے ہوش بھی تو ٹھکانے لگے ہیں
خدارا خبر دے کوئی جا کے ان کو
مری لاش دشمن اٹھانے لگے ہیں
گرا دیکھ کر لوگ سالک کے سر کو
خدا بن کے سب ہی دکھانے لگے ہیں

38