ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آتے
خبر یہ پہلے سے ہوتی ادھر نہیں آتے
ہم اپنے سر میں بہت آگ لے کے پھرتے ہیں
مگر یہ شعلے کسی کو نظر نہیں آتے
مہیب صحرا سے زندہ نکل کے آئے ہیں
نظر اسی لیے اب بحر و بر نہیں آتے
تلاشِ رزق کو اک بار جو نکل جائیں
پلٹ کے پھر کبھی ہم اپنے گھر نہیں آتے
تمام عمر غلامی میں کاٹ دیتے ہیں
ہماری روح میں کیونکر بھنور نہیں آتے
بہت عجیب یاں قحط الرجال ہے شاہدؔ
کہ لوگ کوئی یہاں معتبر نہیں آتے

45