بتائے راز کوئی خامشی کا
چھپائے کیوں ہو گر ہے زندگی کا
پنپتی ہیں ہزاروں خواہشیں پر
ترا دل کاش ہو جائے کسی کا
کرے نیلام جو ہے امن سارا
سبق بھی وہ پڑھائیں آشتی کا
فہم و دانش یہی ہے جان جائیں
کمالِ ظرف ہو خود آگہی کا
امنگیں ختم ہوتی ہیں کہاں کب
بھروسہ پل کا بھی نا آدمی کا
لگائیں نفس پر ضربیں تو حاصل
کریں بس ڈھونگ ہیں ہم ماتمی کا
عطا اشعار ناصؔر تُو بھی کرنا
بہانہ جب ملیگا شاعری کا

0
54