کوزہ گری کا شوق تھا پورا نہ ہو سکا
مِٹّی تو جاندار تھی دانے نہ بو سکا
ماضی کی یادیں زندگی کا روگ بن گئیں
کل بھی کچھ ایسی رات تھی پل بھر نہ سو سکا
اوپر تلے کے حادثے بے حِس بنا گئے
مرگِ جوان پر بھی دل مطلق نہ رو سکا
کپڑوں پہ لگے داغ تو سب صاف ہو گئے
لیکن دِلِ حزیں کو میَں واللہ نہ دھو سکا
قلب و جگر کے ساتھ ہی ہر چیز کھو گئی
کھونا تھا اپنے آپ کو لیکن نہ کھو سکا
خواہش رہی ہے دل میں نوشہرے کو جاؤں گا
جو بات میرے دل میں ہے ماں کو سناؤں گا

0
88