یار اک مسئلہ بنا ہوا ہے
وہ کسی اور سے ملا ہوا ہے
اے درختوں کوئی تو بات کرو
اک پرندے کا دل دکھا ہوا ہے
تلخیاں آ گئی ہیں دونوں میں
عکس آئینے سے لڑا ہوا ہے
ایک کمرہ ہے یاد ہے میں ہوں
اور سگرٹ کا کش لگا ہوا ہے
ہم اسے دیکھ ہی نہیں سکتے
جو ہمارا خدا بنا ہوا ہے

176