زلتوں کی وجہ اپنے اسباب ہیں
ورنہ گوہر بھی ایسا کہ نایاب ہیں
یہ ڈبو دیں گے مجھ کو مجھے خوف ہے
خواب سمجھو نہ ان کو یہ گرداب ہیں
چپ رہو آج تنہا مجھے چھوڑ دو
آنسو آنکھوں سے گرنے کو بیتاب ہیں
گر پڑے تو بہا کر یہ لے جائیں گے
میرے اندر مَہا سَنکھ سیلاب ہیں
آج سن لو کہ سازِ بدن کل نہ ہو
اس کے ہاتھوں میں شیشے کے مضراب ہیں
پھول جھڑتے تھے جب بولتا تھا کبھی
اب تو الفاظ جیسے کہ تیزاب ہیں

0
51