راتیں مشکل کٹ رہی ہیں، دن گزارا جا رہا ہے
رسمیں ایسی بن رہی ہیں، سب کو مارا جا رہا ہے
جیسے تم کو مرضی بولو، جیسے میں چاہوں میں بولوں
دیکھ لو تم کس طرف اسکا اشارا جا رہا ہے
موجیں وحشی سمندر کی قہر اٹھا کے چلتی ہیں تو
بچ بچاتے ایسے میں بھی اک کنارا جا رہا ہے
خاک ہے منزل یہاں اور خاک چاہت خاک دنیا
سچ ہے مٹی کو ہی مٹی میں اتارا جا رہا ہے
اب کے شاید اس میں بھی تو مر رہا ہے آدمی ہی
نیل آنکھیں کر کے یہ کس کو پکارا جا رہا ہے
عقیل محی الدین

1
78
تبصرہ کریں

0