| راتیں مشکل کٹ رہی ہیں، دن گزارا جا رہا ہے |
| رسمیں ایسی بن رہی ہیں، سب کو مارا جا رہا ہے |
| جیسے تم کو مرضی بولو، جیسے میں چاہوں میں بولوں |
| دیکھ لو تم کس طرف اسکا اشارا جا رہا ہے |
| موجیں وحشی سمندر کی قہر اٹھا کے چلتی ہیں تو |
| بچ بچاتے ایسے میں بھی اک کنارا جا رہا ہے |
| خاک ہے منزل یہاں اور خاک چاہت خاک دنیا |
| سچ ہے مٹی کو ہی مٹی میں اتارا جا رہا ہے |
| اب کے شاید اس میں بھی تو مر رہا ہے آدمی ہی |
| نیل آنکھیں کر کے یہ کس کو پکارا جا رہا ہے |
| عقیل محی الدین |
معلومات