اس ساحل کو وہ ساحل بتلاتا ہے
دریا کتنے راز بہا لے جاتا ہے
ابّو کی کمزوری اور گھر کے حالات
دیکھ کے یہ سب دل میرا گھبراتا ہے
یونہی بلندی مل جاتی ہے کیا یاروں
آدمی چھت پر سیڑھی چڑھ کے آتا ہے
اس نے تعلق توڑ دیے پھر بھی اپنا
اب بھی اس سے کوئی رشتہ ناتا ہے
مرتے مرتے جیتے ہیں کچھ لوگ مگر
جینے والا بھی آخر مر جاتا ہے
جانے کس کی پیاس میں ہے دریا خالدؔ
پانی میرے پاؤں سے آ ٹکراتا ہے

0
82