تری گلی سے جڑے راستے ہزاروں ہیں
قدم قدم پہ مگر مسئلے ہزاروں ہیں
بدل بدل کے مجھے عکس کیا دکھاتا ہے
مرے ضمیر ترے آئینے ہزاروں ہیں
نفیس کوچہ و بازار ہیں تو کیا حاصل
سفر سے پاؤں میں جو آبلے ہزاروں ہیں
یہ ایک دن تو مرے واسطے بہت کم ہے
کہ دن بھی ایک ہے اور مسئلے ہزاروں ہیں
ادا شناس تھے پہلی نظر میں جان گئے
بہانے سوچ کے رکھے ہوئے ہزاروں ہیں
قبائے چاک ہوں لیکن وفا کی بستی میں
وہ مرتبہ ہے کہ میرے لئے ہزاروں ہیں
نہیں ہو شاملِ محفل اگرچہ تم بسمل
زباں زباں پہ ترے تذکرے ہزاروں ہیں

0
117