شیلف پہ مٹی سے اٹی وہ پرانی ڈائری
بے ارادہ جو اٹھا کےکھول لی میں نے
ہاتھ پھیرا پھر سینے سے لگائی لی میں نے
کچھ دیر یونہی آنکھیں موندھ لی میں نے
پھر جب پھونک سے مٹی ہٹائی تو ایسا لگا
افری وقت جیسے کچھ دیر تھا رُک سا گیا
جھٹ تصویر اس خوبرُو کی جو پرانی دیکھی
لکھی تھی اس نے پیچھے پریم کہانی دیکھی
وقت ٹھہرا تو منظر بھی بدل گئے سارے
وہ الڑ مٹیار کھڑی تھی سچی سامنے میرے
مسکرایا میں تو وہ بے ربط بات کرنے لگی
آنچل سر پہ ڈالا تو ، نظر جھکا لی اس نے
پھر ہنستے ہوئے ہی ہر بات کی اس نے
بعد مدت کے وہ شوخ جو ملی تھی مجھ سے
ٹیڑے سر سبز راستے تھے سعیلہ کے
چلتے تھے پیڑوں کی قطاروں کے ساتھ
اقرار چھپے رہتے تھے انکاروں کے ساتھ
تھک کر بیٹھ جاتے کبھی پیپل کی چھاؤں میں
وہ مرے کاندھے پہ سر رکھ کر سوتی جاتی
چلہار کے بہتے پانیوں کے وہ بکھرتے موتی
یوں لگتا موسم سورج کی سنہری کرنوں میں
ست رنگ پھولوں کی خوشبو میں تھانہایا ہوا
میں اس کے چہرے پہ نظر جماۓ رکھتا
ناگہاں کہیں اس کا سپنا ٹوٹ نہ جاۓ
ڈرتا جگانے پہ وہ کہیں روٹھ نہ جاۓ
دُور کھیت میں ہالیوں کی گونجتی آوازیں
پرندوں کی مستیاں چُگنا اڑنا پھر بیٹھ جانا
وہ ساتھ ہوتا تھا تو رہتا ہر موسم سہانا
شرطیں تھیں کتنی اسے پانے کے لئے
ظالم سماج کی رسمیں نبھانے کے لئے
تیشۂ بھی نہ تھا جوۓ شیر لانے کے لئے
سجاۓ تھے ہم نے جو سپنے ٹوٹنے لگے
راہ چلتے لوگ جب ہماراتعلق پوچھنے لگے
لگتا تھا جیسے شاخوں پہ پھول سوکھنے لگے
اپنی مفلسی دیکھ میں نے اسے اختیار دیا
سوچتا ہوں اچھا کیا اس کا جیون سنوار دیا
غمِ روزگار میں غمِ یار کو بھی شامل کر لیا
رسوائی سے بچنے کے لئے میں نے افری
سعیلہ ہی نہیں وطن چھوڑنے کا ارادہ کر لیا
جذبوں پہ دُھول جمی تو وہ شکل بیگانی لگی
یاد رہا سعیلہ مجھے مگر اپنی ہی کہانی پرانی لگی

0
34