خود ہی تجھ کو میں بناتا اور پھر خود ہی مٹاتا ہوں
دیکھو تو کس سادگی سے دل کو میں پاگل بناتا ہوں
مجھ کو تیرے شہر کے لوگوں سے جانے کیا شکایت ہے
کتنا ظالم ہوں جو بھی ملتا ہے اس کا دل دکھاتا ہوں
کوئی وعدہ تو کرو اک وعدے پر عمریں گزرتی ہیں
دشمنی ہو دوستی ہو جو بھی ہو دل سے نبھاتا ہوں
شام ہی سے رہتا ہوں مصروف اپنے کام میں جاناں
رات تجھ کو یاد کر کر کے بہت دل کو ستاتا ہوں
خود سے گر کچھ بے خبر ہوں تجھ سے لیکن با خبر ہوں میں
عالمِ خود رفتگی میں بھی ترا نقشہ بناتا ہوں
اس جہاں میں جب ترا کوئی نشاں تک بھی نہیں ملتا
پھر تجھے پوشیدہ اپنے دل کے ویرانے میں پاتا ہوں
دیکھ لو جانم تری فرقت میں کیسا حال ہے اب تو
خود ہی سے کر تا ہوں شکوہ خود ہی سے میں روٹھ جاتا ہوں

142