جس طرح سے سرو قد شمشاد کا باقی رہا
اب بھی دیکھو احترام استاد کا باقی رہا
سیکھ کر اڑنا پرندے چھوڑ جائیں گھونسلے
سلسلہ استاد کی پر داد کا باقی رہا
منصفوں کو سوچنا ہے کل وہ کیا دیں گے جواب
مدرسے میں گر اثر جلّاد کا باقی رہا
عشق کی تاریخ نے سکھلا دیا ایسا سبق
جوئے شیریں تیشۂ فرہاد کا باقی رہا
آگے بڑھنے کے لئے کوشاں کیا استاد نے
شوق ہم کو بھی کسی ایجاد کا باقی رہا
علم کی دولت ملی ہے اور دعا استاد سے
کیوں ہے شکوہ پھر دلِ ناشاد کا باقی رہا
اک نئی آفت ہمیں ہر روز ہی درپیش تھی
اس لئے کوئی نہ ڈر افتاد کا باقی رہا
ہم نے مانا جو کہا طارق کسی استاد نے
اک تعلّق ان سے ہم کو صاد کا باقی رہا

0
18