دل تجھے اس نگری میں آنا نہیں تھا |
بے سبب خود کو یوں الجھانا نہیں تھا |
خود جسے بخشی تھی جذبوں سے روانی |
خود اسی دریا میں بہہ جانا نہیں تھا |
آ گیا تھا مجھ کو جینے کا ہنر اب |
اب تجھے یوں لوٹ کر آنا نہیں تھا |
آگ سے اپنی چمن کو ہی جلاتے |
اس قدر اک گل کو تڑپانا نہیں تھا |
تجھ کو لوٹانا تھا تو دل لوٹا دیتے |
پر یہ پہلا تحفہ لوٹانا نہیں تھا |
میں نے مانا اجنبی تھا تم سے پہلے |
خود سے لیکن اتنا بیگانا نہیں تھا |
معلومات