دل تجھے اس نگری میں آنا نہیں تھا
بے سبب خود کو یوں الجھانا نہیں تھا
خود جسے بخشی تھی جذبوں سے روانی
خود اسی دریا میں بہہ جانا نہیں تھا
آ گیا تھا مجھ کو جینے کا ہنر اب
اب تجھے یوں لوٹ کر آنا نہیں تھا
آگ سے اپنی چمن کو ہی جلاتے
اس قدر اک گل کو تڑپانا نہیں تھا
تجھ کو لوٹانا تھا تو دل لوٹا دیتے
پر یہ پہلا تحفہ لوٹانا نہیں تھا
میں نے مانا اجنبی تھا تم سے پہلے
خود سے لیکن اتنا بیگانا نہیں تھا

0
71