یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں
کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں
یہ تنہائی ہے کیوں میرا مقدر
یہ تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں
سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی
میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں
تمہاری ذات سے نسبت جو ٹھہری
سو، خود کو معتبر لگنے لگا ہوں
کھٹکتا ہوں انہیں تو کیا عجب ہے
تمہارے ساتھ جو بیٹھا ہوا ہوں
گھرا ہوں جانے کب سے دوستوں میں
کسی دشمن کا رستہ دیکھتا ہوں
مروت کا نہ پوچھو یار، مجھ سے
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں
وہ مجھ جیسا مرا ہمزاد ہو گا
کہ میں کب کا یہاں سے جا چکا ہوں
مجھے کتنے ملے غم دوستوں سے
بتاؤ کوئی، میں بھولا ہوا ہوں

145