| مفارقت میں کوئی اس نے درد پایا نہیں |
| کہ جس نے ہجر کا صدمہ کوئی اٹھایا نہیں |
| اسی لئے تو کوئی شخص من کو بھایا نہیں |
| کہ ہم نے بھول سے بھی آپ کو بھلایا نہیں |
| چلو یہ بات یہیں پر تمام کر تے ہیں ہم |
| جو روٹھ بیٹھے کبھی تم، تمہیں منایا نہیں |
| بتاؤ کیا یہی اخلاصِ عشق ہے، نہیں کیوں |
| دلوں کی لوح سے حرفِ دوئی مٹایا نہیں |
| چھلک پڑی ہیں جو آنکھیں ، معذرت ہے، مگر |
| لبوں پے حرف شکایت کبھی سجا یا نہیں |
| فقط ہمیں تھے جو پونچھا کئے ہیں اشک ترے |
| وگرنہ ایک جہاں نے تجھے رلایا نہیں |
| جدھر نگاہ گئی، وحشتوں کا راج ملا |
| کہ دور دور تلک روشنی تھی، سایہ نہیں |
| یہ احتیاط تھی یا تھی انا، کہ اس نے کبھی |
| مجھے بلایا نہیں اور خود وہ آیا نہیں |
| فریب و مکر و تکبر، عناد و بغض و حسد |
| کوئی وہ ظلم بتاؤ جو جاںپے ڈھایا نہیں |
| جواب ہاں میں، نہیں ہے حبیب ناں میں تو |
| یہ کون ہے کہ جو اپنا؟ نہیں، پرا یا؟ نہیں |
معلومات