دھیرے سے زیرِ لب ہی یوں مسکائیے نہیں
دادِ سُخن بھی دیجئے شرمائیے نہیں
کس کو پتہ چلے گا اگر بول ہی نہ پائے
ہم کو وہ کہہ رہے ہیں کہ سمجھا ئیے نہیں
خود اپنے آپ آئے جو کر لیجئے قبول
دامن کسی کے سامنے پھیلا ئیے نہیں
ہم نے تو کام عقل سے لینے کی بات کی
اس بات کی طرف تو کبھی جائیے نہیں
مے خانے میں جو رات ملاقات ہو گئی
کھل پائے گا نہ راز یہ گھبرا ئیے نہیں
سُن کر دلیل بات مری مان جائیے
وعدے سے اپنے ایسے مُکر جائیے نہیں
بنتا کوئی جو کام ہو تو رخنہ ڈالئے
لیکن کسی کے کام ذرا آ ئیے نہیں
بوئی نہیں جو فصل زمیں پر چلا کے ہل
اس کو تو آسمان پہ بھی پائیے نہیں
بویا اگر نہ پیڑ ثمر دار کوئی یاں
پھل اس کا جاکے اگلے جہاں کھائیے نہیں
مشکل میں ہم ہی کام آ ئے آپ کے جناب
لیکن کسی کو بات یہ بتلا ئیے نہیں
یہ فتویٰ بازی آپ کا تو کاروبار ہے
کافر قرار دے کے ستم ڈھا ئیے نہیں
کہتے یہ چاند سے رہے روشن تمام رات
یوں تیرھویں کی رات کو گہنائیے نہیں
لایا نہیں ہوں حرفِ شکایت زبان پر
منہ بات بات پر مرا کھلوا ئیے نہیں
جھنجوڑنے کی دیں گے وہ طارق کڑی سزا
رہنے دیں محوِ خواب انہیں اٹھّا ئیے نہیں

0
21