نہ دیکھ خواب نئے، کوئی ان بہاروں میں
سفیرِ دشت ہوں، رہتا ہوں خارزاروں میں
نہ مجھ کو لذتِ گل چاہیے، نہ رنگ و بو
میں پل چکا ہوں خزاں کی ہی یادگاروں میں
ملی ہے خاک سفر کی جو میری آنکھوں کو
وہ روشنی نہیں پائی کبھی ستاروں میں
میں سوگوار رہا عمر بھر ہنسی بن کر
نہ تھا سکون مجھے قہقہہ قطاروں میں
دلوں پہ زخم سجا کر جو چلتے رہتے ہیں
ملے ہیں مجھ کو وہی لوگ رہگزاروں میں
نہ کر تلاش مجھے خامشی کے منظر میں
میں چیختا رہا برسوں یہ دلفگاروں میں
نہ پوچھ حال مرا بزمِ زندگی میں ابھی
گزر گیا ہوں میں کانٹے لیے بہاروں میں
کلام:- خورشید حسرت

0
3
37
معزز قارئین سے گزارش ہے کہ اس غزل پہ اپنی اصلاحی تنقید ضرور کرے۔

0
خورشید حسرت صاحب - آپ نے پوچھا ہے تو کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا

نہ دیکھ خواب نئے، کوئی ان بہاروں میں
-- یہ مصرع گرامر کے لحاظ سے درست نہیں ہے - "نہ دیکھ " کا مطلب ہے واحد حاضر - یعنی شاعر خود -
-- تو پھر "کوئی" کا محل نہیں ہے - یہ جملہ ہونا چاہیئے تھا - نہ دیکھے خواب نئے کوئی ان بہاروں میں -
-- اگر کوئی کی ضمیر خواب ہے تو پھر یہ کوئی غلط مقام پہ واقع ہے - یعنی اگر آپ کہنا چاہتے ہیں نہ دیکھ کوئ نئے خواب ان بہاروں میں تو اس طرح جیسے آپ نے لکھا ہے اسے تعقیدِ لفظی کا عیب کہیں گے -

سفیرِ دشت ہوں، رہتا ہوں خارزاروں میں
-- یہ اچھا مصرع ہے -

نہ مجھ کو لذتِ گل چاہیے، نہ رنگ و بو
میں پل چکا ہوں خزاں کی ہی یادگاروں میں
-- پہلی بات تو یہ کہ خزاں کی ہی نہیں بلکہ ترکیب ہوگی خزاں ہی کی - پھر لفظ یادگار صرف قافیہ کے لیئے لایا گیا ہے لہذا بھرتی کا لفظ ہے کیونکہ اس کا پہلے مصرعے سے یا نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے -
-- اسی طرح پھر یہ "پل چکا" کا محل نہیں ہے - بلکہ ہونا چاہییے کہ پلا ہوا -

ملی ہے خاک سفر کی جو میری آنکھوں کو
وہ روشنی نہیں پائی کبھی ستاروں میں
--- ملی ہے کا فاعل نہیں ہے - کس نے ملی ہے ؟ یا تو ہوتا ملی ہوئی ہے - ہاں یہ بھی واضح نہیں کہ یہ ملنا یعنی
-- رب کرنا ہے - یا ملنا یعنی ملاقات کرنا ہے - میں نے اس مَلنا پہ میم کی زبر کے ساتھ پڑھا -
-- پھر اس کا دوسرے مصرعے سے کوئی تعلق نہیں - خاک کا روشنی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا - آنکھوں میں جب --خاک ملی ہوگی تو ستاروں سی روشنی کہاں سے آئے گی - یا تو آپ بتاتے کہ یہ خاک خود روشن ہے -
--" وہ روشنی" کا مطلب ہے اوپر والی بات میں بھی روشنی ہے - مگر ایسا نہیں ہے وہ تو خاک ہے -
-- الغڑض یہ شعر شدید تاکیدِ لفظی و معنوی کا شکار ہے -

میں سوگوار رہا عمر بھر ہنسی بن کر
نہ تھا سکون مجھے قہقہہ قطاروں میں
--- قہقہہ قطار اردو میں کچھ نہیں ہوتا کوئی اصطلاح نہیں ہے - آپ کو اگر نئی اصطلاح بنانی ہے تو پھر آپ کو اس سیاق و سباق بھی دینا ہوگا - یہاں قہقہہ محض بھرتی کا قافیہ ہے -

دلوں پہ زخم سجا کر جو چلتے رہتے ہیں
ملے ہیں مجھ کو وہی لوگ رہگزاروں میں
نہ کر تلاش مجھے خامشی کے منظر میں
میں چیختا رہا برسوں یہ دلفگاروں میں
--- یہاں بھی آپ دونوں مصرعوں میں تعلق نہیں بنا سکے - آپ دل فگاروں میں برسوں چیختے رہے تو وہ کون ہے جس سے آپ کہہ رہے ہیں کہ خامشی کے منظر میں آپ کو تلاش نہ کرے؟ اگر آپ کے مخاطب دل فگار لوگ ہی ہیں تو پھر نہ کر کے بجائے آپ کو کہنا تھا "نہ کرو تلاش مجھے"


نہ پوچھ حال مرا بزمِ زندگی میں ابھی
گزر گیا ہوں میں کانٹے لیے بہاروں میں

آپ شاعری اچھی کر سکتے ہیں آپ کو توجہ اس بات پہ دینی ہے کہ آیا جو آپ کے دل میں وہ لفظوں میں بھی آیا کے نہیں -

آپ کی اصلاحی تنقید کا شکریہ جناب!
مگر میں ابھی نو آموز ہوں سیکھ لونگا

0