نہ ہو ختم وہ انتہا چاہتا ہوں
نہیں کچھ خبر ہے کہ کیا چاہتا ہوں
کہاں ہوش میں ہے مزا بے خودی کا
محبت کی مے کا نشہ چاہتا ہوں
مریضِ محبت پہ کچھ تو کرم کر
مرض دائمی ہے شفا چاہتا ہوں
ملے گر نہ جنت کوئی غم نہیں ہے
خدایا میں تیری رضا چاہتا ہوں
مرے رت جگے تجھ سے یہ کہہ رہے ہیں
جو مقبول ہو وہ دعا چاہتا ہوں
مجھے یہ خبر ہے کہ منزل کہاں ہے
جو کھویا ہے وہ راستہ چاہتا ہوں
سمودے سمندر کو تو بلبلے میں
میں ایسا کوئی معجزہ چاہتا ہوں
سلامت رکھے تو مری ہمتوں کو
براہیم کا حوصلہ چاہتا ہوں
درِ مصطفیٰ سے گزر کر جو آئے
وہ لو ہو کہ بادِ صبا، چاہتا ہوں

18
117
جناب کیا آپ جانتے ہیں آپ کی غزل کا مطلع علامہ اقبال صاحب نے چرا لیا تھا ؟

0
جی اسی بحر میں لکھی ہے

0
کسی نے کچھ نہیں چرایا۔

0
جناب اسی زمین میں تو لکھ سکتے ہیں مگر اسی شعر کو تو استعمال نہیں کر سکتے

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

یہ تو علامہ کا مشہور و معروف شعر ہے آپ اس کو پورا کا پورا اپنی غزل میں کیسے شامل کر سکتے ہیں ؟

0
جی آپکی بات درست ہے
لیکن کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں
یہ تو آپ نے بتایا نہیں کہ آپکو کیسی لگی

0
ہم تو طالبِ علم ہیں اصلاح ہی کی تو ضرورت ہے

0
جناب میں آپ کی اس غزل پر تبصرہ ضرور کرتا ہوں کیونکہ آپ ایسا کہہ رہے ہیں-

پہلی بات تو یہ کہ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ ُآپ کسی اور شاعر کا شعر من و عن اپنے کلام میں استعمال کر لیں - یہ سرقہ کہلاتا ہے - زیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ استعمال ہو سکتا ہے اور وہ بھی واوین "" میں لکھنا لازمی ہے -
آپ کو اپنے مطلع کا کوئی ایک مصرعہ بدلنا ہوگا اور دوسرے کو "" میں لکھنا ہوگا -

باقی یہ کہ آپ کا یہ کلام کافی اچھا ہے - خیالات بھی اچھے ہیں - معمولی سی چند باتی دیکھ لیں

مزا بے خودی کا بے ہوشی میں پاؤں
محبت کا تیری نشہ چاہتا ہوں
== بے خودی اور بے ہوشی دو الگ الگ کیفیات ہیں - ایک کو دوسرے میں ملا رہے ہیں تو اگلے مصرعے کو اس خیال کو تقویت دینا چاہییے - جب خدا کی محبت نشہ ہے تو اس میں بے ہوش کوئی کیوں گا کہ آُپ اس بے ہوشی میں بے خودی کا مزا ڈھونڈ رہے ہیں - میرے نزدیک یہ بات بنتی نہیں ہے -

مریضِ محبت پہ کچھ تو کرم کر
مرض دائمی ہے شفا چاہتا ہوں
== یہ اچھا ہے

نہ ملتی ہے جنت کوئی غم نہ ہوگا
خدایا میں تیری رضا چاہتا ہوں
= یہاں زمانی ربط کمزور ہے - جب یہ کہا جاتا ہے کوئی غم نہ ہوگا تو اس ے پہلے اس طرح کی بات ہونی چاہیئے کہ ملے نہ ملے وہ جنت وغیرہ - نہ ملتی ہے زمانی اعتبار سے صحیح نہیں ہے - جیسے ملے گر نہ جنت کوئی غم نہ ہوگا

ندامت کے آنسو یہ کہتے ہیں تجھ سے
جو مقبول ہو وہ دعا چاہتا ہوں
== عام طور پر ندامت کے آنسو کا مقبول دعا سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا ندامت کے آنسو استغفار کے لیئے استعمال ہوتے ہیں - اسکے نتیجے میں ملنے والی مغفرت کو ہم مقبول دعا نہیں کہتے - دونوں مصرعوں میں تعلق مضبوط نہیں ہے -

مجھے یہ خبر ہے کہ منزل کہاں ہے
جو کھویا ہے وہ راستہ چاہتا ہوں
== یہ بہت اچھا شعر ہے -

ملن ہو رہا ہو زمیں کا فلک سے
میں ایسا کوئی معجزہ چاہتا ہوں

== زمیں کا فلک سے ملن تو ایک عام نظارہ ہے جو آپ ہر وقت افق کی طرف دیکھ سکتے ہیں - تو یہ کوئی معجزہ کیسے ہوا ؟

نہ ٹوٹے مرا حوصلہ اے مرے رب
براہیم کا حوصلہ چاہتا ہوں
== دونوں مصرعوں میں آپ نے ایک ہی لفظ حوصلہ استعمال کیا ہے جو شعر کی خوبصورتی کو کم کر رہا
ہے - یہ شاعری میں پسندیدہ امر نہیں ہے - دونوں میں الگ الگ لفظ لائیے

درِ مصطفیٰ سے گزر کر جو آئے
وہ لو ہو کہ بادِ صبا چاہتا ہوں
== یہ اچھا ہے - دوسرا مصرعہ مزید رواں کیا جا سکتا ہے - بادِ صبا کے بعد کوما ضروری ہے

حضرت یہ سب برا لگا ہو تو معذرت خواہ ہوں -

بہت بہت جزاک اللہ خیر
آپ تو میرے استاد ہو گئے ہیں

0
راشد صاحب کی اصلاح بہت خوب ہے بس ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا تھا
کہ معجزے ، صرف انبیاء اکرام سے صادر ہوتے ہیں علماء اکرام سختی سے رد کرتے ہیں کہ کسی دوسرے کے لئے استعمال کیا جائے

0
معذرت چاہتا ہوں ارشد کی جگہ راشد لکھ دیا

0
رضی بھائی علماء اصطلاحی معنوں میں مںع کرتے لیکن لغوی معنوں میں اجازت دیتے ہیں
اس پر علامہ یوسف۔ بنوری ٹاؤن کا فتوا بھی موجود ہے

0
جناب سب کو ادراک کہاں کہ وہ اصطلاح ، لغوی معنوں کی چانچ کر سکیں وہ تو جو مشہور معنی ہے وہ ہی لیں گےاور یہ بھی ہو سکتا ہے ایمان خطرے میں پڑ جائے
اس لئے اجتناب ہی کرنا چاہئے
جناب برا لگا ہو تو معذرت خواہ ہوں

0
بات درست ہے میں اجتناب کرونگا

احسن صاحب
یہ ہر چیز میں زبردستی مذہب کو لے آنا کوئی صحت مندانہ روش نہیں ہے
معجزہ ہماری شاعری میں ہمیشہ ہی استعمال ہوا ہے اور اسکا مطلب سیاق و سباق میں ہی لیا جاتا ہے خوامخواہ اس میں کفر اور ایمان کی بحث میں نہ پڑیں -

علامہ اقبال کہتے ہیں اپنی نظم مسجدِ قرطبہ میں
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود

ٖفراز کہتے ہیں
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں


0
جی آپکا مطالعہ مجھ سے زیادہ ہے
میں بھی نہ لاتا اگر رضی بھائی کا مشورہ نہ ہوتا
ارشد صاحب، آپ اگر وقت نکال لر میری باقی شاعری کا بھی مطالعہ کرسکیں اور اصلاح کردیں تو مشکور ہونگا

0

آپ کی تبدیل شدہ غزل دیکھی آپ نے مطلع غلط لکھا ہے پہلے اس کو صحیح کرین
پہلی بات تو یہ کہ ختم اردو میں جب انجام کے لیئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا تلفظ ہے خ پہ زبر اور ت اور میم پہ جزم - یعنی ختم - آپ نے لکھا ہے خ تم - یعنی خ اور ت دونوں پہ زبر -
یہ عربی والا ہے اور اسکا مطب اور ہے - یاد رکھیئے عروض کے سافٹ ویئر کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ آپ نے لکھا کیا ہے وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ یہ لفظ کون کون سی طرح باندھا جا سکتا ہے بس اس میں سے جس طرح بھی باندھ سکے باندہ کے آُپ کو وزن میں دکھائے گا - یہ شاعر کا کام ہوتا ہے کو وہ ان باتوں کا خیال رکھے -

دوسری غلطی یہ ہے کہ نہ اور نا میں بہت فرق ہے آپ کو یہاں نہ کہنا ہے "نا" نہیں - یہ غلط ہو جائیگا - مگر نہ یک حرفی ہے تو آپ کو اس کی نشست بدلنا ہوگی -

پھر دوسرے مصرعے میں جو آپ نے واوین میں لکھا ہے اس میں آپ نے ایک "میں" زیادہ ڈال دیا ہے -

آپ کا شعر اس طرح صحیح ہوگا

نہ ہو ختم وہ انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

نہ ہو ختم وہ انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں


0

نہ ہو ختم وہ انتہا چاہتا ہوں
"مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"

0
جی اب مکمل تبدیل شدہ ہے
میری باقی شاعری بھی دیکھ لیجیے گا

0