یہ ساقی جامِ سُنّت کے
یہ ہادی راہِ شریعت کے
یہ کامِل پیر طریقت کے
یہ محرم راز حقیقت کے
یاں رازِ حقیقت کُھلتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے
اَخلاق مِثالی ہے ان کا
کردار بھی عالی ہے ان کا
پیغام غزالی ہے ان کا
اورعشق بِلالی ہے ان کا
اک جامِ مَحبَّت مِلتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے
ہمّت جراَت اس پر حکمت
یوں کرتے ہیں اِصلاحِ اُمَّت
رب کی شامِل اس میں نُصرت
کیا خوب ملی ان کو شہرت
انداز تو ان کا یکتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے
خلوت ہے جلوت سے بہتر
باطن بھی ظاہر سے اطہر
نہ عَمَل میں ہے کوئی ہمسَر
تقویٰ میں سَلَف کے ہیں مظہر
دل خوفِ خُدا سے بھرتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے
ہے چہرہ ان کا نورانی
مُسکان بھی ان کی لاثانی
ہے زلف بھی کیسی تابانی
خلقت ان کی ہے دیوانی
اک پھول سُہانا کِھلتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے
شیطاں کو لگی ضربِ کاری
بن گیا زیرکؔ جب عطّاری
فیضِ مرشِد ہر دم جاری
دل جان سے ہم ان پر واری
کس بات سے اب تُو ڈرتا ہے
عطار کا سکہ چلتا ہے

0
37