کچھ اپنے دل کا راز بتاؤ گے یا نہیں
تم سچ کہو کہ سچ کو چھپاؤ گے یا نہیں
آئیں گے ہم بُلاؤ گے تو ، سر کے بل وہاں
بتلاؤ یہ کہ ملنے کو آؤ گے یا نہیں
ہم اپنے اعتماد کا کیا کیا ثبوت دیں
اب اور کوئی آگ جلاؤ گے یا نہیں
عادی ہیں زخم کھانے کے، ہم اس کے پیار میں
تر کش سے اور تیر چلاؤ گے یا نہیں
ہم پی رہے ہیں میکدے میں کب سے دوستو
ساقی سے تم کہو تو ، پلاؤ گے یا نہیں
کچھ تو کہو کہ بھاری ہیں دیکھے ہیں جو نشاں
کچھ بو جھ دل کا ہم سے بٹاؤ گے یا نہیں
کب تلک چلو گے دشت میں پانی لےٴ بغیر
تم اپنی تشنگی کو بجھاؤ گے یا نہیں
عیسیٰ کے انتظار میں کب تک رہو گے تم
تربت پہ اس کی ، پھول چڑھاؤ گے یا نہیں
وہ آگیا مسیح ، بدلنے تمہارے دل
اب جشن اس کا مل کے مناؤ گے یا نہیں
طارق ہوا فریفتہ ہے اس کو دیکھ کر
تم بھی تو اس سے دل کو لگاؤ گے یا نہیں
ڈاکٹر طارق انور باجوہ لندن

0
150