تم سے لگائی شرط جو ہاری نہیں کبھی |
کہہ دو گے یاد آئی تمہاری نہیں کبھی |
سچ سچ بتاؤ تم کہ ہوا ہے یہ حال کیوں |
کاجل سے آنکھ بھی تو نکھاری نہیں کبھی |
جینے لگے تھے ہم بھی مگر تم گئے تو پھر |
ہم کو رہی یہ زندگی پیاری نہیں کبھی |
سانسوں کا سلسلہ ہے سو جاری ہے اب تلک |
ہم کو لگا یہ بوجھ تو بھاری نہیں کبھی |
سنجیدہ گفتگو بھی غزل میں ہوئی مگر |
یہ حسن و عشق سے رہی عاری نہیں کبھی |
ہم نے بھی جس کے نام کبھی کی تھی زندگی |
گزری ہے اس کے بِن یہ گزاری نہیں کبھی |
پیغام تم کو دینا پڑا ہے کہ آؤ گے |
کیا اس سے پہلے تم نے کی ، یاری نہیں کبھی |
طارقؔ خیال و خواب سے ہے ماورا حیات |
سمجھا کو ئی بھی اصلیّت ساری نہیں کبھی |
معلومات