ہے عجب بات کہ تو نے ہے گزارا ہم کو
زندگی تیرے رویے نے ہے مارا ہم کو
ہم نے جس شوقِ تمنا سے تجھے دیکھا تھا
تو نے اپنوں کی طرح کب ہے پکارا ہم کو
وہ جو تحلیل ہوا تجھ میں زمانہ پہلے
وہ کبھی مل نہ سکا شخص دوبارہ ہم کو
وہ ہی بےربط کیے رکھتا ہے اکثر مجھ کو
جس نے ترتیب سے رکھنا تھا اے یارا ہم کو
تو بھی کس طور سے گزری ہے پرائی ہو کے
زندگی تجھ سے ہی شکوہ ہے یہ سارا ہم کو
کھو گیا گر وہ خیالوں سے تو پھر کیا ہو گا
تیری یادوں کا جو رہتا ہے سہارا ہم کو
عشق تیرے سے جہاں اپنا ہے روشن روشن
ہجر تیرے نے شب و روز نکھارا ہم کو
ہم نے الفت کے تقاضے تو نبھائے سارے
کیوں کبھی مل نہ سکا ساتھ تمھارا ہم کو
ہم کو تسکین سی رہتی ہے تری یادوں میں
مل نہ جانا کہیں راہوں میں خدارا ہم کو
تیری قربت میں جو کھویا تھا یونہی خود کو کبھی
پھر کبھی مل نہ سکا ساتھ ہمارا ہم کو
تو ہمایوں سے جو جیتا بھی تو کیسے جیتا
تجھ کو معلوم کہاں ہے کہ تو ہارا ہم کو
ہمایوں

0
14