17۔7۔2022/1۔4۔2024 |
غزل |
کہا کسی نے ، ہوئے ظلم کا سبب ، پتھر |
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب ، پتھر |
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا |
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب ، پتھر |
جو وہ نہ مل سکا ، ان کو تو سجدہ کرنے کو |
پجاری لے گئے تھے اس کے گھر کے سب ، پتھر |
اگرچہ واقعہ گزرے یہ ہو گئے برسوں |
کہو تو گریہ و زاری سنو ، بہ لب ، پتھر |
جُدائی ایسی ہوئی باپ کی تھی بیٹے سے |
کہ انتظار میں آنکھیں ہوئی تھیں تب ، پتھر |
سوال اس نے کیا ، بھائیوں سے یوسف کا |
جواب اس کو بھلا دے سکے ، تھے کب پتھر |
نہ جانے کیسے یہ قسمت پہ ہوں اثر انداز |
کہ پہنے جاتے ہیں انگلی میں اب عجب پتھر |
احد پہاڑ کے ، وہ خوش نصیب تھے کتنے |
رسولِ پاک کے آ ئے تھے جو عقب ، پتھر |
جہاں نماز پڑھائی گئی تھی نبیوں کو |
نشاں ہیں قبلۂ اوّل کے با ادب ، پتھر |
طواف کرنے گیا جب حرم تو دیکھ لیا |
وہاں تو روندتے ہیں لوگ روز و شب ، پتھر |
نصیب کیسا ہے اُس کا ، ہر ایک چومتا ہے |
جو ایک کونے میں کعبے کے ہے نصَب ، پتھر |
جہاں میں پھولا سماتا نہیں ہے وہ طارقؔ |
وہاں پہ چھُو گئے جس کے بھی دست و لب ، پتھر |
معلومات