اب نہیں چاہیے ترا دل, اسے اپنے پاس رکھ |
جا کے اُدھر تو اپنے اُن بکروں کے آگے گھاس رکھ |
اوڑھ کے جو ہو جائے اوجھل تو نگاہِ غیر سے |
یار تو اپنے کپروں میں ایسا کوئی لباس رکھ |
پانی تو اب پلا دے مہمان ہوں آج تیرے گھر |
میرے کہے بغیر تو شربتوں کے گلاس رکھ |
اتنی تو جلدی مت پی شربت کا گلاس صبر کر |
تو مرے اشک پینے کی بھی تو گلے میں پیاس رکھ |
کردے بہت بڑے سمندر کو جو بند کوزے میں |
ایسا سخن کے تو مضامین میں اقتباس رکھ |
شعر کی تہ میں گھس کے جوہر کوئی جو نکال لے |
ایسا کوئی تو بھی تو ایداتؔ سخن شناس رکھ |
معلومات