اُٹھ، خودی کو کر بلند، اپنی حقیقت کو پہچان |
کہ تجھ میں چھپی ہے وہ چنگاری، جو کر دے جہاں کو حیران |
یہ مٹی، یہ آسمان، تیرے وجود کے نقش ہیں |
نہ خود کو بھول، نہ خوابوں کے راز کو نادان |
زمانہ تیرے ارادوں کا آئینہ ہے اے بشر |
جو تُو بدل دے نگاہ، بدل جائے ہر جہان |
نہ پوچھ غیروں سے اپنی قدر و قیمت کا حال |
جو دل میں نورِ یقیں ہے، وہی تیرا سامان |
خدا نے رکھا ہے تجھ میں ایک کائنات کا عکس |
تُو خود سے مل، تُو خود کو بنا پہچان |
یہ خاک، یہ افلاک، سب تیرے نام کے منتظر |
بس چل اُٹھ، توڑ تقدیر کے سب بند و نشان |
اور آخر میں بس اتنا کہہ گیا شاعرِ وقت — |
اُٹھ، جیو اُس طرح کہ فخر کرے تُجھ پہ، ندیمؔ انسان! |
معلومات