جسے ہم ڈھونڈتے پھرتے رہے ہر بزم و محفل میں |
شرابِ عشق وہ ہم کو ملی میخانئہِ دل میں |
یہ آنکھیں جب بھی روتی ہیں بھگو دیتی ہیں عارض کو |
بڑا گہرا تعلق ہے سمندر اور ساحل میں |
جہاں پر عدل کا پرچم ہر اِک پرچم سے اونچا ہو |
سمجھ لینا وہی بہتر قبیلہ ہے قبائل میں |
مجھے تو شاعری کرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی |
اُلجھ جاتا ہوں یوں اکثر ریاضی کے مسائل میں |
ہمی نے دیکھی ہے تاریخ کی سب سے بُری ہجرت |
دلوں سے لوگ نکلے اور بسے جاکر مُبائل میں |
جو یہ کہتے ہیں ہم نے تو قیامت کو نہیں دیکھا |
حیات اُن سے یہ کہتا ہے کبھی جھانکو مرے دل میں۔ |
معلومات