وصل کو فرقت بنا کے کہا شہ اور مات
گت میں یوں فرزیں کو لا کے کہا شہ اور مات
عرضِ وفا پر کہا، جا، مری جانے بلا
مرتا ہے مر جا، جلا کے کہا شہ اور مات
میں نے جب ان سے کہا، کوئی ہے شرم و حیا؟
آنکھوں سے آنکھیں ملا کے کہا شہ اور مات
حالتِ دل جو بیاں کی تو وہ مغرور نے
تن کے بھویں اور چڑا کے کہا شہ اور مات
چال چلے ہیں بہت ٹیڑھی کہ رخ لے لیا
میرے پیادے گرا کے کہا شہ اور مات
مہرہ بنا پہلے دل ان کے ہی دل کے لیے
فیل سے پھر فیل اڑا کے کہا شہ اور مات
دشتِ چتورنگ میں طے ہے پیادے کی ہار
کھیل کچھ ایسا رچا کے کہا شہ اور مات
وصل میں اول تو ڈھیل دیتے گئے اور پھر
ہجر میں ہم کو پھنسا کے کہا شہ اور مات
بھاگتا پھرتا ہوں تن تنہا کہ جوں بادشا
زیبؔ کو آخر گرا کے کہا شہ اور مات

0
80