زندگی کا کوئی مقصد اس سے تو بہتر نہیں
آدمی ہی آدمی کے کام آتا پر نہیں
کیا کبھی سوچا کسی نے زندگی اک دوڑ ہے
اپنے اپنے گھر میں بیٹھے چین سے کیونکر نہیں
اس نے میری داستاں سن کر عجب یہ بات کی
تم جہاں سے آ رہے ہو وہ تو میرا گھر نہیں
ہم تو جس گھر میں گئے سب ہی وہاں خوش باش تھے
تم ہوئے مایوس جس سے وہ تو اس کا در نہیں
مجھ کو جو بے چین پایا بارہا اس نے کہا
چین سے بیٹھو یہاں تم گھر میں ہو دفتر نہیں
ہو گئے حیران جو دیکھا تماشا روز ہی
پوجتے ہیں اپنی خواہش کو خدا کا ڈر نہیں
گردوارے، مسجد و مندر کلیسا بھی ہیں یاں
آنکھ پر ہوتی خدا کے سامنے بھی تر نہیں
آ کے ساقی نے یہ بتلایا ہے جھوٹی ہے خبر
میکدے میں اب کوئی جام و سبو ساغر نہیں
جبّہ پوشوں نے سنبھالا ہے جو اب ایمان کو
اب کسی کو دیں کے بنیادی سبق ازبر نہیں
ابتدائے عشق میں گزرے تھے ہم جس دور سے
آج کانٹے پھول ہیں کیا راہ میں پتھر نہیں
طارق اب جاتے کہاں ہو بات پوری تو سنو
جس گلی مسجد تھی پہلے اب وہاں مندر نہیں

0
40