افکار سن کے تلخیٔ گفتار مر گئے |
شیریں سخن تھے صاحبِ کردار مر گئے |
اندر سے کھا رہے تھے انہیں کچھ گناہ بھی |
توبہ کئے بغیر گنہ گار مر گئے |
منہ دینے کا ہر ایک کو جو حوصلہ نہ تھا |
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے |
اخلاص دوستوں میں بھی باقی نہیں رہا |
پہلے جو با وفا تھے سرِ دار مر گئے |
کچھ جیتنے کا حوصلہ لے کر اٹھے تھے جو |
ان کو بھی راس آئی نہیں ہار مر گئے |
ان کو بھی زعم تھا کرے کوئی مقابلہ |
تیرِ نظر سے جب ہوا دیدار مر گئے |
طارق فریفتہ ہوا ہے حسنِ خُلق پر |
جذبے عداوتوں کے ہوا پیار مر گئے |
معلومات