کس کس سے کہیں اب ہم افسانہ محبت کا
اک جان ہے جوکھوں میں اور طعنہ محبت کا
جب دیکھ لیں محفل میں لوگوں سے وہ کہتے ہیں
وہ دیکھو چلا آیا دیوانہ محبت کا
اک اس کی تمنّا ہے وہ خود ہی چلا آئے
لبریز ہوا اب تو پیمانہ محبت کا
یہ دل ہے اداسی میں اجڑا ہے سکوں اس کا
تم آؤ تو بن جائے کاشانہ محبت کا
کچھ دخل نہ تھا میرا تم نے ہی جلا کی تھی
تم نے ہی بسایا تھا میخانہ محبت کا
تم دور ہوئے جب سے کچھ کام نہیں دل کو
خالی ہے پڑا تب سے یہ خانہ محبت کا
اس ماہ جبیں کو میں لفظوں میں لکھوں کیا کیا
مجھ کو تو وہ لگتا ہے در دانہ محبت کا
اک اس کی تمنا کو اس دل میں چھپایا ہے
مل جائے تو کر دوں گا شکرانہ محبت کا
ہم کو تو نہیں ملتا غیروں سے وہ ملتا ہے
کیسا ہے یہ اندازِ حجابانہ محبت کا
تم نے بھی جلال ان سے توقع یہ نہیں کرنی
مل جائے کبھی ان سے پروانہ محبت کا

0
7