| میں خود کو تُجھی میں فنا دیکھتا ہوں |
| کہ تجھ میں ہی خود کو بقا دیکھتا ہوں |
| تِرا عکس مجھ میں نمایاں ہے ایسے |
| کہ خود کو تِرا آئینہ دیکھتا ہوں |
| بصیرت تِری کا ہے احسان مجھ پر |
| کہ بندے کی صورت خدا دیکھتا ہوں |
| مِلا مجھ کو وحدت کا عرفان تجھ سے |
| بَجز تجھ کے کُل مَاسِوا دیکھتا ہوں |
| تجھی سے عیاں حسنِ جاناں کے جلوے |
| ملائک سبھی کو جھکا دیکھتا ہوں |
| تِری بزم ایسی انوکھی نرالی |
| جلال و جمال ایک جا دیکھتا ہوں |
| اٹھا مَے پرستی کو وقتِ سحر جو |
| تِرے مَے کدہ کو کْھلا دیکھتا ہوں |
| تِرا رنگ بھایا ہے مجھ کو ازل سے |
| اسی میں خودی کو رنگا دیکھتا ہوں |
| پھِروں لا مکاں میں تڑپتا پھڑکتا |
| 'تِرے عشق کی انتہا' دیکھتا ہوں |
| لطائف میں اخفٰى خفى سر سے آگے |
| میں جاری صدائے اَنا دیکھتا ہوں |
| نگاہیں تری بس ہمیں پر جمی ہیں |
| اُمڈتا میں بحرِ عطا دیکھتا ہوں |
| گدا بن گیا ہوں تِرے در کا جب سے |
| میں جھولی کو اپنی بھرا دیکھتا ہوں |
| رہے راضی خواجہ تمنا ہے دل کی |
| اسی میں خدا کی رضا دیکھتا ہوں |
| کرامت تری سے ملی ہے حضوری |
| مبارک درِ مصطفٰی دیکھتا ہوں |
معلومات