نام ہی لب پر نہ آئے، پیار یہ کیسا ہوا
مطمئن تو ذکرکرنے سے دلِ شیدا ہوا
ہو مسافر ڈوبتی کشتی کا یا بیمارِ دل
نام لیتا ہے اسی کا اتّفاق ایسا ہوا
پوچھتے ہو کیا مرے دلبر کا رنگ و روپ تم
جس نے دیکھا حسن اس کا وہ تو پھر اس کا ہوا
مصلحت کے سب تقاضے ہم نبھا سکتے نہیں
سچ کو سچ کہہ کر کبھی کوئی نہیں رسوا ہوا
ہم نے سچ جانا وہی اس نے جو ہم سے کہہ دیا
ورنہ مشکل اعتبارِ وعدۂ فردا ہوا
ہم نے کب سوچا تھا جُھک جائیں گے تیرے سامنے
تُو نے کی تسخیرِ دل تب جا کے اِک سجدہ ہوا
عمر ساری لگ گئی ترتیب دینے میں اسے
اک نظر سے، دل کا سب ساماں تہہ و بالا ہوا
ہم الجھ کر رہ گئے دنیا میں جب آئے یہاں
اب خیال آیا ہے طارق یہ بھی کیا جینا ہوا

0
70