راستوں کی گرد میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
ہر صدف کی گود میں لعل و گُہر آتا نہیں
پہلے سارے راستے تھے میرے گھر کے آس پاس
اب کسی بھی راستے پہ میرا گھر آتا نہیں
یوں تو ہر اک کام میں اُن کو ہے کامل دسترس
جو کسی کو شاد کردے وہ ہنر آتا نہیں
خاتمہ ہے بھُوک کا نہ گردشِ لَیل و نہار
ایک سا ہے ہر بَرَس نَوعِ دگر آتا نہیں
پا گئے لقبِ کلیم اُللہ بھی کوہ طُور بھی
ہر کسی مُوسیٰ کی قسمت میں خِضر آتا نہیں
خواب میں آنے کا وعدہ کر لیا اس نے مگر
آیا ہو گا خواب میں لیکن نظر آتا نہیں
اک مسلسل کرب جو واللہ نفوذِ جان ہے
جستجُو جس کی رہی وہ چارہ گر آتا نہیں
آج خط آنا تھا ان کا اک تجسس صبح سے
بار بار اُٹھتی ہیں نظریں نامہ بر آتا نہیں
ڈھونڈتے ہو تم جسے امید وہ ناپید ہے
اس جہاں میں واللہ دائم مستقر آتا نہیں

0
64