| پاس آتے ہوئے بھی فاصلے بڑھتے گئے |
| جب کسی اور سے ترے رابطے بڑھتے گئے |
| رستے کے پتھروں کا لاکھ شکریہ کہ ہم |
| گرنے سے اور بھی سنبھلتے گئے بڑھتے گئے |
| پہلے نزدیک ہی منزل دکھائی دی مگر |
| جو کبھی ہم چلے تو راستے بڑھتے گئے |
| پہلے تو شہر میں اک آدھ مرتا تھا کوئی |
| تیرے آنے سے یہاں حادثے بڑھتے گئے |
| غم، پریشانی، اداسی تھی پہلے بھی مگر |
| عشق میں اور بھی یہ مسئلے بڑھتے گئے |
معلومات