خلقِ خدا ہے نازاں سرکار مل گئے ہیں
خُلقِ عظیم آقا دلدار مل گئے ہیں
اُن کے گھرانے پر ہم کرتے ہیں جاں نچھاور
کچھ ساتھ عشقِ جاں سے سرشار مل گئے ہیں
بیمارِ عشق جاناں راضی ہیں اس عطا پر
بطحا سے ان حزیں کو اقرار مل گئے ہیں
ہے راہِ زندگی اب دشواریوں سے خالی
جو قافلے کو اعلیٰ سالار مل گئے ہیں
ناسوت کے جہاں میں کچھ شاد شاد ہیں من
اس فخر میں کہ ان کو مختار مل گئے ہیں
دائم یوں یادِ جاں میں، ان کو سکون دل ہے
عشقِ نبی سے ان کو، جو پیار مل گئے ہیں
قربان جاں ہیں کرتے یہ عظمتِ نبی پر
خوش ہیں کہ ان کو شاہِ ابرار مل گئے ہیں
مولا کو علم پورا جن کے مقام کا ہے
ہستی کو اُن سے پیارے انوار مل گئے ہیں
معمور لطفِ جاں سے گلشن جہان کا ہے
اس کو مدینے والے بازار مل گئے ہیں
قربان جان میری اُن کی عطائیں مجھ پر
کیا جانے کتنے گوہر یک بار مل گئے ہیں
محمود کامرانی ان کے قدم کو چومے
جن کو مدینے والے سرکار مل گئے ہیں

0
12