| مرے محسن! مرے جانم! سہارے مار ڈالیں گے |
| کہ جن پر ہے یقیں تجھ کو ، دلارے مار ڈالیں گے |
| وہ اپنا ہو کے بیگانہ بنا پھرتا ہے کوچے میں |
| صدائے دردِ دل سمجھو ! پیارے مار ڈالیں گے |
| وہ جن پر کل تلک مجھ کو بھروسا تھا ، محبت تھی |
| عدو کی عادتیں پرکھو ، اشارے مار ڈالیں گے |
| کہ دریا پار جب میں نے بلایا تو کہا اُس نے |
| بڑی ظالم ہیں یہ موجیں ، کنارے مار ڈالیں گے |
| دسمبر سے بھی پہلے ہیں یقیناً سال کی راتیں |
| سحر کی آرزو میں یہ ستارے مار ڈالیں گے |
معلومات