حاصلِ زیست رہی صرف گماں کی صورت |
یعنی وحشت رہی اور آہ و فغاں کی صورت |
کوئی بھی رنگ نہ بھایا تھا ہمارا اس کو |
ہم تھے اس کے لیے ایک ابرِ گراں کی صورت |
یہ مری خانہ خرابی! کہ ہے عرضِ قربت |
اور جواب اس کا طلب کرتے ہیں ہاں کی صورت |
اس جہاں میں بھلا ہونا ہی برا ہونا ہے |
اس طرح اجڑی رہی قلبِ جہاں کی صورت |
آبلہ پائی میں ہم چلتے رہے دیر تلک |
کوئی منزل ہی تھی اپنی، نہ نشاں کی صورت |
کتنا ٹھہراؤ رہا، کتنی خموشی بھی تھی |
سبھی موسم تھے یوں جیسے ہو خزاں کی صورت |
ہم تھے بس دل کی تسلی کو جٹے ہوۓ مگر |
کسی صورت نہیں تھی تیری اماں کی صورت |
ہے بہت رنج کہ اُس دل کے کسی گوشے میں |
ہو چکے ہم تو کسی شخصِ فلاں کی صورت |
اس قدر وقت کی رفتار میں سوزش تھی کہ اب |
زیبؔ سے ملتی نہیں زیبؔ میاں کی صورت |
معلومات