پھر سے چمکا ہے ہلالِ ماہِ نور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور
۔
باغِ مرسل کے گلِ گلدار ہیں
کل جہاں کے رہبر و دلدار ہیں
واقفِ اسرار رب کے یار ہیں
دو جہاں کے مالک و مختار ہیں
۔
آ گئے وہ شافعِ یوم النشور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور
۔
جگمگایا نورِ شہ سے آسماں
بزمِ ہستی کی وہ ہیں روحِ رواں
ماہتاب و آفتاب ان کے گدا
نور ان سے مانگتی ہے کہکشاں
۔
چھا گیا سب پر عجب سا اک سرور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور
۔
آلِ نجدی تیرا جلنا ہے فضول
عشق احمد میں نہیں دخلِ عقول
حبِ شاہِ دو سرا اصل الاصول
ہیں خدا کے نور کی نوری فصول
یا الٰہی صدقۂ آل رسول
یہ سجاوٹ یہ چراغاں ہو قبول
۔
گھر گلی کوچے سجانا تم ضرور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور
۔
خوش ہیں سب اہلِ فلک اہلِ دؤل
آ رہے ہیں وہ حبیبِ لم یزل
گھومتے پھرتے ہیں عاشق خلد میں
جشنِ میلاد النبی کا ہے یہ پھل
۔
سب بلائیں عاشقوں سے بھاگی دور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور
۔
عشق کا کرنا تم اظہارِ کمال
یوں ہی میلادِ شہ منانا سال و سال
گاڑنا جھنڈے لگانا لائٹیں
تم پہ آئے گا نہ اے لوگو زوال
.
ہے مدثر عیدِ مولد کا سرور
پندرہ سوواں ہے میلادِ حضور

0
22