ترے انتظار کی ریت پر
کوئی لفظ میں نے لکھا نہ تھا
کوئی حرف میں نے کہا نہ تھا
کوئی خواب میں نے چُنا نہ تھا
اسی انتظار کی ریت پر
مری آرزوؤں گلاب تھے
مری جستجو کے سراب تھے
سبھی چاہتوں کے جواب تھے
سبھی حسرتیں وہ کہاں گئیں
تری چاہتیں وہ کہاں گئیں
مرے ہمنشیں مرے ہمسفر
میں پلٹ کے شاید نہ آ سکوں
اسی انتظار کی ریت پر
میں ہوں بیٹھا دریا کی ریت پر
میں بکھر گیا ہوں ہواؤں میں
مجھے یاد رکھنا دعاؤں میں

0
97