خود اپنی راہ کی دیوار بن گیا ہوں میں
کہ اپنے دشمنوں کا یار بن گیا ہوں میں
تو میرا چہرا تو پڑھ اے مرے رفیق کہ اب
خود اپنے آپ کا اخبار بن گیا ہوں میں
میں جس کہانی کا مرکز تھا اک زمانے تک
اب اس کا ثانوی کردار بن گیا ہوں میں
یہ کس مقام پہ لایا ہے زندگی کا سفر
کہ خود ہی اپنے لیے خار بن گیا ہوں میں
کبھی تھا آئینہ اپنے وجود کا میں مگر
اب اپنی ذات کا انکار بن گیا ہوں میں

0
58