نظر نے خواب دیکھے بے حساب راتوں میں
محبتیں بھی ہوئیں بے نصیب، ندیمؔ
ہزار زخم بھی کھائے، مگر قدم نہ رکے
رہا وفا پہ دل بے رقیب، ندیمؔ
کبھی سکون ملا، پھر وہی خلش دل کی
یہ زندگی کا ہے عجب نصیب، ندیمؔ
کسی کے ہجر نے جلتی ہوا بنا ڈالا
کسی کی یاد بنی تشریب، ندیمؔ
زمانہ کہتا رہا ہم غلط ہیں ہر موڑ پر
مگر ضمیر نے کی تھی تصدیق، ندیمؔ
کبھی خیال میں آیا، وہ ایک لمحہ خوشی
کبھی وہ لمحہ بنا تشویق، ندیمؔ
جو بات لب پہ نہ آئی، وہی تھی سب کچھ
وہی تھی دل کی اصل تحریر، ندیمؔ
سفر طویل تھا، منزل کہیں نظر نہ آئی
مگر نہ ہارا ترا مسافرِ غریب، ندیمؔ
محبتوں کا صلہ کب ملا زمانے سے
یہ دہر دیتا ہے صرف تنقید، ندیمؔ
جہاں میں شور بہت ہے، مگر سکون نہیں
وہ دل ہی جانتا ہے یہ حقیقت عجیب، ندیمؔ

0
8