تمام دیواریں توڑ ڈالو تمام اینٹیں فروخت کر دو
ہمارے اس شہر کی مڈیریں سبھی فصیلیں فروخت کر دو
ہمیں ہی مجرم قرار دینا جو چاہتے ہو تو اے وکیلو
جو جا رہی ہوں ہمارے حق میں وہ سب دلیلیں فروخت کر دو
جو ایک دو خواب رہ گئے ہیں اگر خوشی کے، نہ دیکھ پائیں
جو بچ گئیں ہیں ہماری آنکھوں میں کچھ، وہ نیندیں فروخت کر دو
یہ عزم و ایثار کی چٹانیں کہیں نہ پھر شہر کو بسالیں
تو آؤتم اس کے سارے پتھر تمام اینٹیں فروخت کر دو
ہر اک ستم ہے روا مگر ہم رواں ہیں منزل کی سمت، تم سے
جو ہو سکے تو ہمارے رستے ہماری راہیں فروخت کر دو
بگاڑ دو ساری عادتوں اور ساری اچھی روایتوں کو
ہماری اقدار،اچھے اخلاق، ساری ریتیں فروخت کر دو
جو ایسے حیلوں سے آپ کے گھر کی رونقیں بڑھ سکیں تو کیا غم
ہمارے بازار، سارے گھر بار سب زمینیں فروخت کر دو
کرو ستم اور چاہو ہمدردیاں سمیٹو زمانے بھر کی
تو سب ہمارے بلکتے آنسو، سسکتی آہیں فروخت کر دو
ہر اک سحر اور ہر ایک شب پر تمہارا حق ہے سو اس کی خاطر
ہمارے حصے کے سارے دن اور ساری راتیں فروخت کر دو
تمہارے دل میں ہماری یادیں جو نقش ہیں سب کی سب مٹا دو
حسین لمحے، سہانی شامیں،تمام یادیں فرخت کر دو
ہر ایک شے چھین لی گئی ہے نہ گھر بچے ہیں نہ در بچے ہیں
بس اک سمندر ہے اس کی سب سر پٹختی لہریں فروخت کر دو
حبیب جب تم وطن کے بیٹوں کو بیٹیوں کو بھی بیچ کھائے
بعید کیا ہے جو دھرتی ماں کو بھی کوڑیوں میں فروخت کردو

0
67