| غزل |
| ہے اس کی یاد ، پیار کی لذّت لئے ہوئے |
| پیدا ہوئے تھے ہم یہی فطرت لئے ہوئے |
| رہتا جمالِ تام ہے پردے میں گو نہاں |
| ہر شے ہے اس کا حسن و لطافت لئے ہوئے |
| جلوہ نما ہے اک وہی تو کائنات میں |
| پر چاہئے نظر ہو محبّت لئے ہوئے |
| قدرت سے اس نے اپنی بنایا ہے جو نظام |
| دیکھا ہے عقل نے اسے حیرت لئے ہوۓ |
| نازاں تھے اپنی عقل پہ جو صاحبِ شعور |
| لوٹے ہیں دل میں علم کی حسرت لئے ہوۓ |
| یہ بھی ہوا ہے بارہا مُشکل میں جب پڑے |
| دیکھا ہے اس کو سامنے رحمت لئے ہوئے |
| گر اس کا جاہ وحشم ہو مدِّ نظر ہمیں |
| ہر اک مقام پر رہیں عزت لئے ہوۓ |
| طارق اسی کے در سے ہیں وابستہ راحتیں |
| بیٹھو یہیں پہ فہم و فراست لئےہوۓ |
| ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔ لندن |
معلومات